اہل بیت(ع) نیوز ایجنسی ـ ابنا ||
اقتصادی تعلقات: کاروباری پن کا انجن
اسرائیل کے تئیں ترکیہ کی نام نہاد "عملی" پالیسی کا بنیادی محور 'معیشت' ہے۔ اعداد و شمار سے معلوم ہوتا ہے کہ ترک حکومت کے لئے اقتصادی، تجارتی اور توانائی کے مفادات سیاسی نعروں پر فوقیت رکھتے ہیں۔
- 2023 اور 2024 میں ترکیہ سے اسرائیل کو اسٹریٹجک اشیا جیسے اسٹیل، سیمنٹ اور یہاں تک کہ دھماکہ خیز مواد کی روزانہ برآمدات۔ کم از کم ہم یہ ضرور جانتے ہیں کہ روزانہ دھماکہ خیز مواد کی ترکیہ سے مقبوضہ فلسطین ترسیل ـ غزہ جنگ کے عین موقع پر ـ کہاں استعمال ہوتا رہا ہوگا!
- مقبوضہ علاقوں کی اسٹیل مارکیٹ میں ترک کمپنیوں کا غلبہ
- ترکیہ مشرقی بحیرہ روم میں توانائی کے منصوبوں میں تل ابیب حکومت کے ساتھ تعاون کرنے میں دلچسپی رکھتا ہے
- مصر سے ترکیہ کو قدرتی گیس کی درآمد، جس کا کچھ حصہ اسرائیلی گیس فیلڈز سے فراہم کیا جاتا ہے!
اس کے علاوہ ترکیہ اسرائیلی مصنوعات کا چوتھا بڑا درآمد کنندہ ہے۔


انقرہ ڈبل گیم کیوں کھیل رہا ہے؟
اردوان کی دوہری پالیسی کی وضاحت کئی اہم عوامل سے کی جا سکتی ہے:
اقتصادی عملیت پسندی اور پیشہ ورانہ کاروباری پن:
اردوان اچھی طرح جانتے ہیں کہ اسرائیل کے ساتھ مکمل طور پر تعلقات منقطع کرنا ترکیہ کی معیشت کے لئے سنگین نتائج کا سبب بنے گا اور عالمی معیشت کے ساتھ انقرہ کے تعلقات کمزور ہوں گے؛ چنانچہ وہ ہرگز فلسطینی کاز کے لئے کوئی حقیقی "خرچ" برداشت کرنے کا کوئی ارادہ نہیں رکھتے۔ دریں اثنا، یہ بات انتہائی قابل غور ہے کہ اس کے باوجود کہ ترکیہ نے گذشتہ برسوں میں اسرائیلی ریاست کی جارحیت اور جرائم کو نظر انداز کرتے ہوئے اسے بے انتہا رعایتیں دی ہیں مگر ترکیہ کی اقتصادی صورت حال روز بروز خراب ہوتی جا رہی ہے! سیاحوں کی تعداد میں تیزی سے کمی کا بحران، بے تحاشا مہنگائی، خاص طور پر اشیائے خورد و نوش کی قیمتوں میں مسلسل اضافہ، اور ترکیہ میں پیدا ہونے والی مصنوعات کی مقدار اور معیار میں گراوٹ اس صورتحال کی مثالیں ہیں۔
ملکی اور علاقائی تحفظات:
اردوان 'اسرائیل مخالف نعرے لگا کر' اپنے بزعم، ترکیہ کے اندر اپنے اسلام پسند حامیوں کو منظم کرنے اور راضی رکھنے کی کوشش کر رہے ہیں اور ان کی اپنے تصور کے مطابق، عالم اسلام کی قیادت سنبھالنے کا ارادہ رکھتے ہیں! لیکن عملی طور پر وہ سیاسی اور معاشی مفادات کو 'ان نعروں' پر قربان نہیں کرتے۔
اخلاقی ساکھ کی تنزلی:
اس دوہری پالیسی کی وجہ سے طویل مدت میں، مسلم دنیا میں اردوان کی "اخلاقی ساکھ کی تنزلی" ہوئی ہے۔ بہت سے لوگ غزہ کے دفاع اور اسرائیل کے ساتھ تجارت جاری رکھنے کے درمیان تضاد کو "سیاسی منافقت" کی ایک شکل کے طور پر دیکھتے ہیں جو ان کے قیادت کے دعوے کے جواز کو مجروح کرتا ہے۔
مختصر یہ کہ اردوان کے اسرائیل کے ساتھ تعلقات نظریات پر مبنی نہیں ہیں بلکہ 'سرد، منافع پر مبنی حساب کتاب' پر استوار ہیں۔ اس تعلق کو ایک پیچیدہ کھیل کے طور پر دیکھا جا سکتا ہے جس میں 'نعرے' اور 'اعمال' دو متوازی لیکن مکمل طور پر الگ الگ سمتوں میں حرکت کرتے ہیں۔


فلسطین کاز کے سلسلے میں ترکیہ اور ایران کے اقدامات کا موازنہ
فلسطین کی حمایت میں اردوان کے مؤقف کی سنجیدگی سمجھنے کے لئے شاید ان کے موقف اور اقدامات کا اسلامی جمہوریہ ایران کے مؤقف اور اقدامات سے مختصر موازنہ ہی کافی ہے۔
مختصراً یہ کہ ایران کا موقف ایک طے شدہ 'نظریاتی' اور 'ناقابل سمجھوتہ دینی' موقف ہے جو صہیونی ریاست کے ساتھ تعلقات منقطع رکھنے اور اسرائیل کے وجود کی مخالفت کو ایک اصول سمجھتا ہے۔
اردوان کے موقف کی تعریف عملیت پسندی، مصلحت پسندی اور مفاد پرستی سے ہوتی ہے اور یہ موقف مفادات کی تبدیلی سے تبدیل ہوجاتا ہے، اور یہ بنیادی عقیدے سے زیادہ ایک سیاسی ہتھیار ہے، جس کے ذریعے وہ کبھی کبھار اسرائیل کو بلیک میل کرتے ہیں۔
شاید، فلسطینی کاز کے تئیں ترکیہ کے موقف کے لئے ـ تساہل و مسامحت یا تغافل کرکے ـ "اسلام پسندانہ عملیت پسندی (Islamist Pragmatism)" کا عنوان دیا جا سکے؛ امت مسلل کی نسبت تاریخی احساس ذمہ داری اور قومی سود وزیاں کے احتساب کا امتزاج۔
لیکن فلسطینی کاز کے ساتھ اسلامی جمہوریہ ایران کے تعلق کی بنیاد ـ صہیونیت کی مستقل مخالفت، ایک نصب العین اسلامی نظام حکومت کے ناقابل تغیر اصول کے طور پر۔ ایک ثابت قدم انقلابی نظریہ ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ترجمہ: ابو فروہ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
110
آپ کا تبصرہ